ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کے حوالے سے ایک عالم سے سنا تھا کہ انگریزوں نے ہندوستان میں کچھ پیشوں کو اس لیے بھی بدنام کیا کہ وہ مسلمانوں کی خود داری کے زرائع تھیں، اور انگریز کی تجارت میں رکاوٹ بھی ،، مثلا کسی پر لوگ طنز کرتے ہیں تو جھولہا کہ دیا جاتا ہے،، جھولہا وہ لوگ تھیں جو ہاتھوں سے کپڑے بناتے تھیں ، جن کے ہاتھوں کی محنت نے انگریزی مشینوں کو مات دی تھی، کپڑے بنانے میں اتنی مہارت تھی کہ ان کے بنائے ہوئےکپڑے کی قمیص ماچس کی ڈبیہ میں آجاتی تھی، انگریز کے مشین بھی ایسے کپڑے نہیں بنا سکتے تھے،
آخر انگریز حکومت نے جن کو ھم انسانیت کے ٹھیکے دار، اور مسیحا سمجھتے ہیں، اس خودداری کے جرم میں ان کی انگلیاں کاٹ دی،
اور پھر مختلف طریقوں سے انگریز نے ہر اس قوم وپیشو کو بدنام کرنا شروع کیا جو ان کے لیے کسی بھی طریقے سے رکاوٹ بن رہے تھیں، تاکہ مسلمان کسی پیشے اور کسب میں عیب محسوس کرے،اور ہماری نوکری کو ترجیح دے،عجیب بات یہ ہے کہ ان کے بدنام کیے ہوئے قوم اور پیشو کا نام صرف ہندوستانی اور پاکستانی لوگ استہزاء کے طور پر لیتے ہیں ورنہ باہر ممالک میں ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے،
آج کے حالات تو ہمارے سامنے ہیں، کہ مجموعی طور پر اعلی سے اعلی تعلیم یافتہ قوم کی یہ دعا ہوتی ہے کہ یا اللہ بہترین نوکری عطاء فرمائے، بالفاظ دیگر مجھے بہترین نوکر بنادے،
ان چیزوں کے پیچھے کافی محنت ہے،

No comments:
Post a Comment